ماں کا خط
ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ وہاں ایک ماں اور اس کا بیٹا رہتے تھے۔ بیٹا بہت غریب تھا اور پڑھا لکھا بھی نہیں تھا۔ وہ ہر روز مزدوری کرتا اور جو کچھ کماتا، اس سے اپنا اور اپنی بوڑھی ماں کا پیٹ پالتا۔ ماں کو اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی اور بیٹا بھی ماں کا بے حد احترام کرتا تھا۔
ایک دن ماں بہت بیمار پڑ گئی۔ بیٹے نے دن رات ایک کر دیا، جو کچھ اس کے پاس تھا، سب ماں کے علاج پر لگا دیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ماں کی حالت بگڑتی گئی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور ایک صبح ماں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔
بیٹا ماں کی موت پر بہت غمگین ہوا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کس کے لیے جیے گا، کس کے لیے مزدوری کرے گا۔ جب ماں کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا، بیٹے نے ماں کے تکیے کے نیچے کچھ دیکھا۔ اس نے جھک کر دیکھا تو وہ ایک چھوٹا سا خط تھا۔
بیٹے نے کانپتے ہاتھوں سے وہ خط اٹھایا۔ وہ خط اس کی ماں نے لکھا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بیٹا پڑھا لکھا نہیں تھا۔ وہ رونے لگا، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے اپنے ایک پڑوسی کو بلایا اور اس سے کہا، "چچا جان، میری ماں نے یہ خط لکھا ہے، براہ کرم اسے پڑھ کر سنا دیجیے۔"
پڑوسی نے خط کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔ خط میں لکھا تھا:
"میرے پیارے بیٹے، جب تم یہ خط پڑھ رہے ہو گے تو شاید میں اس دنیا میں نہیں رہوں گی۔ میں جانتی ہوں کہ تم پڑھنا نہیں جانتے، اس لیے میں نے یہ خط اس طرح لکھا ہے کہ جب کوئی دوسرا تمہارے لیے یہ پڑھے تو تم سمجھ سکو کہ میری محبت تم تک پہنچ رہی ہے۔ مجھے پتا ہے تم بہت محنتی ہو، تم نے میرے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ میں نے تمہیں کبھی کچھ نہیں دیا۔ میرا تم پر بہت قرض ہے۔ میں نے تمہیں کبھی پیار سے نہیں کہا کہ میرے بیٹے، میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں۔ جب تم چھوٹے تھے اور بھوکے روتے تھے تو میں تمہیں دودھ پلاتی تھی۔ لیکن مجھے تمہاری پرورش پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی، مجھے ہمیشہ فخر رہا۔ تم میری سب سے بڑی دولت ہو۔ تم میرا سہارا بنے۔ آج میں جا رہی ہوں، لیکن میری دعا ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے۔ میں نے تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑا، سوائے ڈھیروں دعاؤں کے۔ میرا بیٹا، کبھی ہمت مت ہارنا۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔"
خط سنتے ہی بیٹا دھاڑیں مار کر رو پڑا۔ اسے اپنی ماں کی محبت کا احساس اس طرح پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ خط صرف الفاظ نہیں تھا، یہ ماں کی بے لوث محبت اور قربانی کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔
یہ کہانی کیسی لگی؟ کیا آپ ایسی کوئی اور کہانی سننا چ
اہیں گے؟
0 Comments