۔📜 70 سال پرانا راز: ایک ایسی کہانی جو آنسو بہا دے گی
Keywords: پاکستان کی تقسیم کا راز، جذباتی کہانی، ہجرت کی داستان، 70 سال پرانا راز، پرانے خطوط، سچی کہانی، بلاگر پوسٹ
داستانِ فراق: لکشمی اور علی کا آخری وعدہ
دادی حویلی کے سب سے تاریک کونے میں بیٹھی تھی، جہاں دھول کی تہوں کے نیچے تاریخ کا ایک ورق چھپا تھا۔ 80 سال کی لکشمی کا چہرہ برسوں کی مشقت اور یادوں کا آئینہ دار تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں آج بھی 1947 کی ہجرت کی داستان زندہ تھی۔
میز پر رکھے ہوئے پرانے خطوط کا ڈھیر اس کے ہاتھ میں کانپ رہا تھا۔ یہ خطوط کوئی عام کاغذ کے ٹکڑے نہیں تھے، بلکہ یہ 70 سال پرانا راز تھے جو اس نے دنیا سے چھپا کر رکھا تھا۔ اس نے اپنے پوتے، سُکھ کو آواز دی، جو آج کل انٹرنیٹ پر 'پاکستان کی تقسیم کا راز' جیسے موضوعات تلاش کر رہا تھا۔
"سُکھ، کیا تم ہمیشہ سچائی تلاش کرتے ہو؟" دادی نے ایک بھیگی آواز میں پوچھا۔ سُکھ نے حیرت سے سر ہلایا۔
دادی نے اپنے سامنے ایک بوسیدہ ڈائری کھولی۔ اس میں ہر صفحے پر گہرے نیلے رنگ کی سیاہی سے ایک نام لکھا تھا: "علی"۔
علی، لکشمی کا ہمسایہ اور بچپن کا دوست تھا۔ وہ اُسی گاؤں میں رہتے تھے جو اچانک تقسیم ہند کی لکیر پر آ گیا۔ جب 1947 میں فسادات پھوٹ پڑے اور ہر طرف افراتفری مچ گئی، تو علی نے لکشمی اور اس کے خاندان کو بحفاظت سرحد پار پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔
"ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم پھر کبھی ملیں گے یا نہیں،" دادی نے سسکتے ہوئے کہا۔ "علی نے مجھے جانے سے پہلے ایک صندوق دیا، جس میں یہ ڈائری اور کچھ خاندانی تصاویر تھیں۔ اس نے کہا تھا کہ 'جب تک زندگی ہے، یہ صندوق تمہاری میراث ہے، مگر میری زندگی کا آخری راز اسی ڈائری میں چھپا ہے۔'
لکشمی نے ڈائری کا آخری صفحہ کھولا، جہاں صرف تین الفاظ لکھے تھے: "میں، علی، بھی ہندُو ہوں۔"
یہ وہ حیرت انگیز سچائی تھی جو 70 سال تک سینے میں دفن رہی۔ علی ایک ہندُو تھا جس کے خاندان نے کئی دہائیاں پہلے اپنی جان بچانے کے لیے مذہب تبدیل کر لیا تھا۔ جب اس نے لکشمی کے خاندان کو بچایا، تو اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب وہ پاکستان میں نہیں رہ سکے گا، کیونکہ وہ اپنی اصل پہچان چھپانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے لکشمی کو بچا کر واپس اپنے گاؤں جا کر سچائی قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا، یہ جانتے ہوئے کہ اب اس کی زندگی کو شدید خطرہ ہے۔
لکشمی نے صندوق میں موجود ایک پرانے پتھر کے تعویذ کو نکالا، جو علی نے اسے آخری ملاقات میں دیا تھا۔ "علی نے کہا تھا، جب 'سچی ہجرت کی داستان' سامنے آئے گی، تو یہ تعویذ اس کی علامت ہو گا کہ اس نے اپنا وعدہ نبھایا۔"
سُکھ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک بوسیدہ صندوق اور پرانے خطوط میں ملک کی تاریخ کا اتنا بڑا راز چھپا ہو گا۔ یہ کہانی صرف ایک جذباتی کہانی نہیں تھی، یہ اس وقت کے ان لاکھوں لوگوں کی قربانی کی داستان تھی جنہیں مذہب یا سرحدوں کے نام پر ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا تھا۔


0 Comments