آسیبی تکون یا برمودا ٹرائی اینگل


برمودا جزائر شمالی بحر اوقیانوس میں تین سو جزیروں کا مجموعہ ہے جس کا کُل رقبہ 53 مربع کلومیٹر اور آبادی 63 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ دارالحکومت ہملٹن ہے۔ ان جزائر کو ہسپانوی جہازراں جوآن ڈی برموڈیز نے 1503ء میں دریافت کیا تھا۔
برمودا ٹرائی اینگل جسے آسیبی تکون بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا پُراسرار سمندری علاقہ ہے جہاں فزکس کا کوئی قانون کام نہیں کرتا۔ اس تکون کا رقبہ گیارہ لاکھ چالیس ہزار مربع کلومیٹر ہے جس کے ایک طرف برمودا جزیرہ، دوسری طرف امریکہ کا شہر میامی اور تیسری طرف پورٹوریکو واقع ہے۔ اس خطّے کو برمودا ٹرائی اینگل کا نام 1964ء میں دیا گیا۔
کرسٹوفر کولمبس نے 1492ء میں اس علاقے کا سفر کیا تو لکھا کہ اس سمندری خطّے میں ایسی پُراسرار قوّت موجود ہے جو ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہاں ہر طرف عجیب و غریب روشنیوں کا ہجوم رہتا ہے۔ طیارے اور بحری جہاز ایسے غائب ہوتے ہیں کہ اُن کا نام و نشان نہیں ملتا۔ یہاں اب تک جتنے بھی جہاز غائب ہوئے ہیں اُن کا آخری پیغام یہی موصول ہوا تھا کہ ’’اب ہم سفید پانی پر آگئے ہیں۔‘‘
ریکارڈ کے مطابق پہلا بحری جہاز مارچ 1918ء میں لاپتہ ہوا تھا جو امریکی تھا۔ اب تک دو سو سے زائد مافوق الفطرت واقعات اس علاقے سے وابستہ ہوچکے ہیں جن میں سب سے نمایاں واقعہ 5 دسمبر 1945ء کو ہوا جس میں امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈوبمبار طیارے یہاں پہنچ کر غائب ہوگئے۔ اس واقعے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ جہاز جب روانہ ہوئے تو موسم سازگار تھا لیکن پھر اچانک خطرناک ہوگیا اور ہوابازوں کے لیے سمت تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔
خلائی سیاروں سے مشاہدہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں بڑے بڑے سمندری طوفان آناً فاناً جنم لیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوجاتے ہیں۔ اس علاقے میں زلزلوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ یہاں (میتھین) ہائیڈریٹس گیس غیرمعمولی مقدار میں پائی جاتی ہے جو پانی کی کمیت کو تبدیل کردیتی ہے جس سے جہاز بغیر کوئی نشان چھوڑے لمحوں میں غائب ہوجاتے ہیں۔