گھانا کے دلچسپ حقائق اور ثقافت
مغربی افریقی ملک گھانا، جو اپنی دلکش تاریخ، منفرد ثقافت اور قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے نمایاں ہے۔ یہ ملک اپنے مہمان نواز اور پرامن شہریوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔
تاریخی اور جغرافیائی اہمیت
گھانا کے دارالحکومت اکرا سے منکسم جانے والی سڑک کیپ کوسٹ شہر کی طرف جاتی ہے، جہاں ایک تاریخی قلعہ واقع ہے۔ یہ قلعہ ابتدائی طور پر 1653 میں سویڈش تاجروں نے لکڑی اور سونے کی تجارت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ لیکن بعد میں اسے غلاموں کی تجارت کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا، جو اس وقت اپنے عروج پر تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو غلام بنا کر اس قلعے میں لایا جاتا اور پھر یہاں سے انہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بھیج دیا جاتا تھا۔ قلعے کے گائیڈز اس دور کی دلخراش داستانیں اس مہارت سے سناتے ہیں کہ سننے والوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ قلعے کے ایک دروازے پر، جو سمندر کی طرف کھلتا ہے، جلی حروف میں "The Gate of No Return" لکھا ہوا ہے۔ نہ جانے کتنے ہی لوگوں نے اس دروازے سے آخری بار گزر کر ایک ایسی دنیا میں قدم رکھا جہاں سے ان کی اپنے گھروں کو واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ آزادی واقعی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون پہلے ہی الفضل انٹرنیشنل اور خادم مسرور کی ویب سائٹ پر شائع ہو چکا ہے۔
ڈرائیونگ اور ٹرانسپورٹ
گھانا کے لوگ بے جا جلد بازی سے گریز کرتے ہیں اور یہ رویہ ان کی ڈرائیونگ میں بھی نظر آتا ہے۔ تاہم، حادثات پھر بھی ہو جاتے ہیں۔ ان حادثات کو عبرت کا ذریعہ بنانے کے لیے ہر حادثے کی جگہ پر ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے جس پر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اس جگہ کتنے افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہاں کی انٹرسٹی کوچز اور بسیں بہت معیاری ہیں اور بعض تو افریقہ کے دور دراز ممالک تک بھی جاتی ہیں۔ مغربی افریقہ کے مقامی باشندے صرف اپنا شناختی کارڈ دکھا کر دوسرے ملک جا سکتے ہیں، انہیں ویزا کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ہمسایہ ممالک اور علاقے
گھانا کے پڑوسی ممالک میں مشرق کی طرف ٹوگو، مغرب میں آئیوری کوسٹ اور شمال میں برکینا فاسو واقع ہے، جبکہ جنوب میں گلف آف گینی کا سمندر ہے۔ منکسم کا قصبہ، جہاں جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل تعمیر کیا گیا ہے، اکرا سے کیپ کوسٹ جانے والی مرکزی سڑک پر واقع ہے۔ یہ قصبہ تمام بنیادی سہولیات جیسے ٹیلی فون، بینک اور مارکیٹ سے آراستہ ہے اور یہاں انٹرنیٹ کی بھی عمدہ سروس موجود ہے۔ جامعہ کی عمارت مرکزی شاہراہ سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بلند مقام پر بنائی گئی ہے، جہاں سے پورا شہر صاف نظر آتا ہے۔ جامعہ کا یہ پورا علاقہ اونچے نیچے حصوں پر مشتمل ہے۔ جامعہ کی مرکزی عمارت کے بعد ایک ڈھلان سے گزر کر ایک اور اونچے مقام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے، جہاں پانچ سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ گھانا میں اس وقت 230 سے زائد احمدیہ مساجد ہیں۔ مسجد سے گزرتا ہوا راستہ ایک جھیل پر ختم ہوتا ہے جو جامعہ کی زمین کا حصہ ہے۔
طرزِ زندگی اور خوراک
گھانا میں سگریٹ نوشی بہت کم ہے۔ سڑکوں پر سگریٹ پیتے ہوئے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے سگریٹ کی دکانیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کچھ بڑی مارکیٹس میں سگریٹ دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں پھل کثرت سے دستیاب ہیں، خاص طور پر یہاں کا انناس جسے دنیا کا بہترین انناس کہا جاتا ہے۔ سڑکوں اور بازاروں میں ناریل کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہاں کا کیلا بہت میٹھا اور مزیدار ہوتا ہے جبکہ کیلے کی ایک قسم کو سبزی کے طور پر پکایا جاتا ہے جسے Plantin کہتے ہیں۔ آم، پپیتا، خربوزہ اور تربوز بھی وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ ایشین سبزیاں چونکہ مقامی خوراک کا حصہ نہیں ہیں اس لیے عام طور پر نہیں ملتیں، لیکن ایشین دکانوں سے خریدی جا سکتی ہیں۔ مقامی لوگ عموماً یام اور کساوا استعمال کرتے ہیں جو آلو جیسی سبزیاں ہیں۔ کساوا اور کچے کیلے کو ابال کر پیس کر فوفو تیار کیا جاتا ہے، جسے مچھلی، چکن یا گوشت کے سوپ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ فوفو کو چبائے بغیر کھانا پڑتا ہے کیونکہ یہ بہت چپچپا ہوتا ہے۔ مکئی کو ابال کر اور پیس کر بانکو بنایا جاتا ہے۔ دیگر سبزیوں میں گوبھی، کھیرا، ٹماٹر، شملہ مرچ اور سفید بینگن آسانی سے مل جاتے ہیں۔
حیوانات اور جغرافیہ
گھانا کے کّوے کا سینہ سفید ہوتا ہے، اور اس کی گردن پر بھی سفید دھاری ہوتی ہے، جو اسے قدرت کا ایک خوبصورت نمونہ بناتی ہے۔ یہ کوّا عام کّووں کے مقابلے میں کم شور مچاتا ہے۔ یہاں کی بکریاں بہت چھوٹی ہوتی ہیں، اس لیے عیدالاضحی کے لیے قربانی کے بکرے برکینا فاسو سے لائے جاتے ہیں۔ گلیوں میں کتے بہت کم نظر آتے ہیں اور بلی بھی چھوٹی ہوتی ہے۔ مرغیاں ایشیائی مرغیوں کی طرح ہی ہوتی ہیں۔
گھانا خط استوا کے بہت قریب واقع ہے، جس کی وجہ سے یہاں سال بھر سورج سر کے اوپر رہتا ہے اور دھوپ کی شدت کافی محسوس ہوتی ہے۔ گھانا کا وقت گرینچ مین ٹائم کے مطابق ہے کیونکہ پرائم میریڈیئن لائن بھی اس ملک کے وسط سے گزرتی ہے۔ خط استوا اور یہ لائن گھانا کے قریب سمندر میں ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گھانا زمین کے مرکز سے سب سے زیادہ قریب واقع ہے کیونکہ بحر اوقیانوس میں ان دونوں فرضی لائنوں کے ملاپ سے بننے والا مرکز گھانا سے صرف 382 میل دور ہے۔
قومی اور مذہبی پہلو
گھانا کا کل رقبہ تقریباً ایک لاکھ مربع میل اور آبادی اڑھائی کروڑ ہے۔ یہاں دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل، لیک وولٹا، موجود ہے۔ ملک کے جھنڈے میں سرخ، سنہری اور سبز رنگ کی پٹیاں ہیں اور ان کے درمیان ایک سیاہ ستارہ ہے۔ سرخ رنگ انقلاب کے لیے بہنے والے خون، سنہری رنگ سونے کے ذخائر، سبز رنگ زرخیز زمین اور زرعی خوشحالی کی علامت ہے جبکہ سیاہ ستارہ افریقہ کی آزادی کی یادگار ہے۔ ملک کو دس ریجنز میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں 170 اضلاع میں بانٹا گیا ہے۔ یہاں تیل کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ فٹ بال یہاں کا سب سے پسندیدہ کھیل ہے اور قومی ٹیم کا نام "بلیک سٹارز" ہے۔ مذہبی آزادی کے لحاظ سے یہ ملک دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں لیکن ان کے باہمی تعلقات میں کوئی کشیدگی نہیں ہوتی۔ یہ اس قول کی عملی تصویر ہے کہ "مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا"۔
موت اور رسم و رواج
گھانا میں وفات کے موقع پر بھی تقریبات منائی جاتی ہیں اور موت کو انسان کے یادگار لمحات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ گھر میں وفات ہونے پر رونے دھونے کے بجائے مختلف رسومات کے ساتھ دھوم دھام سے گزارا جاتا ہے۔ بعض معاشروں میں شادی بیاہ پر کی جانے والی رسومات سے ملتی جلتی رسومات یہاں وفات کے موقع پر ہوتی ہیں۔ گھروں کو سجایا جاتا ہے اور حسب استطاعت مہمانوں کو بھی بلایا جاتا ہے۔ یہ تیاریاں مکمل ہونے تک میت کو تدفین کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مرنے والوں کے لیے ان کے پیشے کے مطابق تابوت تیار کیے جاتے ہیں، جیسے ڈرائیور کے لیے گاڑی کی شکل کا تابوت یا مچھیرے کے لیے مچھلی کی شکل کا تابوت، جو کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ اس نے ان مہنگی رسومات سے بچنے کے لیے اسلام قبول کیا کیونکہ عیسائیت میں یہ رسومات غریبوں کے لیے مشکل تھیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام سادگی کا درس دیتا ہے جو بہت بہتر ہے۔
وطن سے محبت
بہر حال، ہر شخص کے لیے اپنے وطن کی اچھی چیزوں کا تصور ہی دل میں محبت کی لہر پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی اپنے وطن مکہ سے گہری محبت تھی۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ جب غفار قبیلے کا ایک شخص مکہ سے مدینہ آیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے مکہ کا حال پوچھا تو اس نے کمال فصاحت و بلاغت سے جواب دیا۔ اس نے کہا: "سرزمین مکہ کے دامن سرسبز و شاداب تھے، اس کے چٹیل میدان میں سفید اذخر گھاس اپنے جوبن پر تھی اور کیکر کے درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے"۔ یہ سن کر نبی اکرم ﷺ کو مکہ کی یاد آئی اور وطن کی محبت نے جوش مارا۔ آپؐ نے فرمایا: "بس کرو اور مکہ کے مزید احوال بتا کر ہمیں غمگین نہ کرو۔"
0 Comments